از: الف عین
گدھے کا گوشت کھلانے کی خبر چلانے کے پیچھے کیا ھے..؟؟؟ مصنف لکھتا ہے کہ چند سال پہلے کی بات ھے میں دوبئی میں ہنگری (یورپ) کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا ، اُس کے ساتھ میری کافی گپ شپ تھی ،
ایک دن ھم لوگ پیکٹ والی لسی پی رھے تھے ، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں ،
میں نے اسے بتایا کہ یہ لسی ھم گھر میں بناتے ھیں ، وہ بڑا حیران ھوا، بولا کیسے ،
میں نے اسے کہا کہ ھم لوگ دھی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں ، وہ اور بھی حیران ہو گیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ھے ، میں نے بولا ھم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دھی بناتے ہیں ۔
پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں ، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں ،
وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کر رھا ھوں کہنے لگا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں ۔
کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک یعنی قدرتی چیزوں سے محروم ھونے والے ھو ، میں بولا وہ کیسے ،
اس نے بتایا کہ ھنگری میں بھی ایسے ھوا کرتا تھا ، پھر ساری معیشت ی ہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی ،
انتظامی معاملات بھی
ی ہودیوں کے ہاتھ میں آ گئے ،
انہوں نے کوالٹی اور صحت کے حوالے سے میڈیا پر اشتہاری مہم چلائی اور جتنی بھی آرگینک (قدرتی) چیزیں تھیں ان کو صحت کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے دیا.... جیسے کھلا دودھ ، کھلی روٹی ، گوشت ، ہوٹل ، فروٹ ، وغیرہ وغیرہ ۔
پھر کیا ھوا ؟ برانڈ متعارف ھو گئے ، جو انٹرنیشنل لیول کے میعار کے مطابق تھے ۔
گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیاں مارکیٹ میں آ گئیں ، ان کا گوشت ڈبوں میں اچھی اور خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ملنے لگا.
اور جو عام بیچنے والے تھے ان پر اداروں کے چھاپے پڑنے شروع ھو گئے.
میڈیا پر انہیں بدنام کیا جانے لگا ، نتیجہ کیا نکلا ، گوشت کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جو تھوڑے سرمایہ دار تھے ، گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے انکو اپنی فرنچائزز دے دیں ، اب وہ کمپنیوں کا گوشت فروخت کرنے لگے.
عام قصائی گوشت والا جانور لے کر ذبح کر کے گوشت صاف کر کے بیچتا ، بڑی بےایمانی کرتا تو ، گوشت کو پانی لگا لیتا ، اور کمپنیاں کیا کرتیں ، وہ کسی کو نہیں پتہ، پورا جانور مشین میں ڈالتے ، اس کا قیمہ قیمہ کرتے گوبر اور آنتوں سمیت !! پھر اس میں کیمیکل ڈال کر صاف کرتے ، اس کو طویل عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے مزید کیمیکل ڈالتے ، پھر اسکے مختلف سائز کے پیس بنا کر پیک کر کے مارکیٹ میں ڈال دیتے
اور
لوگ برانڈ کے نام پر خریدتے ، باھر رہنے والوں کو گوشت کمپنیوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گا !!
اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے کیلئے مقامی قصائیوں کو بدنام کرنا ضروری تھا ۔
اس کیلئے گدھے کے گوشت کا ڈرامہ رچایا گیا........
یہ ڈرامہ میڈیا نے کسی کے کہنے پر کھیلا ۔۔۔۔ تاکہ لوگ بڑا گوشت نہ کھائیں اور مرغی کی طرف واپس آئیں ۔۔۔۔ کیا اب ملک میں گدھے ختم ھو گئے ہیں ؟
نہیں !!! بلکہ سیلز ٹارگٹ حاصل ھو رھے ہیں ۔۔۔۔
بھینسوں کو شہروں سے کیوں نکالا گیا؟
تاکہ خالص ، تازہ اور سستے دودھ کی جگہ ڈبہ والا دودھ فروخت کیا جا سکے ۔۔۔۔
جب
مطلوبہ ٹاگٹ پورے نہیں ھوئے تو کھلے دودھ کے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔۔
اسی طرح مقامی گوالوں کے ساتھ بھی کیا ؛ پہلے تو میڈیا پر مہم چلا کر ان کو مارکیٹ میں بدنام کیا پھر ان کو اپنی فرنچائز دے دیں اور اپنا ھی دودھ بیچنا شروع کر دیا ۔
اب مجھے یہ بتائیں کہ جو دودھ عام اور چھوٹے فارمز سے آتا ھے یعنی مقامی گوالوں کا کھلا دودھ
مقامی گوالا
اس کیلئے کسی قسم کا کیمیکل نا تو جانور کو کھلاتا ھے اور نہ دودھ میں ڈالتا ھے ، زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا ، پانی ڈال لے گا زیادہ ڈالے گا تو وہ بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا ،،،
اور جو نیسلے، ملک پیک اور دوسرے ٹیٹرا پیک والے ہیں وہ دودھ کو لمبے عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا کیمیکل ڈالتے ہیں اور فارموں میں جانوروں کو ناجانے کیا کچھ کھلاتے ہیں ،،
یہودیوں کا دودھ صحیح ھے یا کسان والا مقامی کھلا دودھ ؟؟
دبئی میں دودھ کی ایکسپائری ڈیٹ جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ کیمیکل ھوگا اور اتنی قیمت کم ھو گی ۔
ایک ھی کمپنی کا دودھ اگر ٹیٹرا پیک میں خریدیں گے تو تین درھم فی لیٹر قیمت ھے ،
اسی کمپنی کی بوتل فریش والی خریدیں گے تو چھ درہم لیٹر اور آج کل آرگینک دودھ بھی مارکیٹ میں آ گیا ھے جو چودہ درھم فی لیٹر ھے ۔
مجھے یہ بتائیں ، کہ کھلا دودھ نکال کر چودہ درھم کا بک رہا ھے تو کیا ضرورت ھے ، پیکنگ کر کے تین درھم کا بیچنے کی ،، ؟؟
لوگ اب آرگینک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہم بدقسمت برانڈ کے پیچھے پڑ گئے ہیں ،
اب پاکستان میں بھی بڑے بڑے ڈیری فارم بن رھے ہیں ، اور ھر دوسرے روز حکومت دودھ والوں پر چھاپے مار رھی ھوتی ھے اور میڈیا پر دکھا رھی ھوتی ھے کہ دودھ میں یہ ملایا، وہ ملایا ،، اسٹرنگ آپریشن کیے جا رھے ھوتے ھیں ،،
او بھائی ، اگر کاروائی کرنی ھے تو میڈیا پر شور مچانے کی کیا ضرورت ھے؟ کیوں لوگوں کا اعتبار اٹھانے کیلئے ذھن تبدیل کر رھے ھیں ۔
اب آپ کے ذھن میں یہ سوال لازمی آئے گا کہ دنیا کی ھر تباھی کو یہودیوں سے کیوں جوڑا جاتا ھے؟؟؟ ؟
تو میرے بھائیو آپ نے صرف یہ کرنا ھے کہ دنیا کے سب بڑے برانڈڈ پیک فوڈ کمپنیوں کے مالک کی لسٹ نکال لیں اور بہت آسانی سے ان کے نام کی پروفائل واٹس ایپ ، انسٹاگرام ، فیس بک پر چیک کر لیں یا پھر ان ناموں کو گوگل پر سرچ کر لیں تو ان کی پروفائل پر آپ کو ان کا مذھب یہودی ھی ملے گا. دنیا کے ذیادہ تر کاروبار کے مالک یہی یہودی ھی ہیں کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی کنٹرول میں کئے ھوئے ہیں اور جب چاھیں عوام میں پروپیگنڈا پھیلا دیتے ھیں ۔
بہرحال اس تحریر کا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنی قدرتی خوراک کو اپنائیں اور شارٹ کٹ سے بنی ھوئی ھر اس خوراک سے خود بھی بچیں اور خاص طور پر اپنی اولاد کو ان سے بچائیں مثلاً پیپسی ، کوک جیسی ڈرنک ، پیک جوسز ، پیک چپس ، مختلف اسنیکس ، برگر ، پیزا کیوں کہ ان میں بھی پیک فروزن چکن اور پیک لوازمات استعمال کئیے جاتے ہیں ۔
یاد رھے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک جہاں کرونا اموات سب سے زیادہ ھوئی ھیں وہاں کی زیادہ تر آبادی کی خوراک یہی برگر ، پیزا اور پیک فوڈز پر مشتمل ھوتی ھے
لہذا فیصلہ ھم نے خود کرنا ھے ۔
شکریہ
اس قیمتی تحریر کو
امت اور انسانیت کی فلاح کیلئے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ۔
جزاک اللہ
کہتے ہیں کہ جب چنگیز خان نے لاکھوں انسانوں کا قتل کیا تو زمین سے کاربن کم ہوگئی۔۔
شاید یہ زلزلے سیلاب اور ہنگامی حالات اسی لئے آتے ؟
انسان خود کو بہت بڑا تخلیق کار سمجھتا ہے۔۔اس نے پہیہ بنایا پھر جہاز بنایا اور اب ہر سسٹم کو آٹومیٹک کر کے اے آئی بنا چکا ہے۔۔
مگر کیا انسان واقعی عقل کل کا مالک ہے؟
چرنوبائل کا واقعہ پہلا نیوکلئیر واقعہ ہوا۔۔ تابکاری ایسی کہ ماں علاقے سے دور جا رہی ہے خیال رکھ رکھ کر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ نوماہ قبل ہونے والے واقعات سے تابکاری اس نے جذب کر لی۔۔
بچہ مر گیا۔۔ ماں بچ گئی۔۔
جب نیوکلئیر پلانٹ کا کور تباہ ہوتا ہے تو وہ گریفائیٹ کے کالے ٹکڑے اس جگہ کو دنیا کی خطرناک ترین جگہ بنا دیتے ہیں۔۔
اور سمجھ نہیں آتی غلطی کس کی ہے۔۔ لوکل حکومت جو کہہ رہی کہ تابکاری کم ہے۔۔ یا چیف انجینئیر جو خود جا کر جائزہ نہیں لے رہا؟ اس وقت اے آئی نے اتنی ترقی کی ہوتی تو شاید زیادہ اچھے ربوٹس استعمال کر کے اس خطرناک نیوکلئیر کور کی چھت کو بند کیا جا سکتا تھا۔۔مگر انسان استعمال کئے گئے۔۔ حفاظتی اقدام کے باوجود انکی زندگی آدھی رہ گئی۔۔
جس جس نے اس فضا میں سانس لی وہ متاثر ہوا۔۔
فوجی گھر گھر جا کر پالتو جانوروں کو مار رہے ہیں کہ وہ تابکاری سے متاثر شدہ ہیں۔۔
کام کرنے والے پروفیسر لیجسلو کو پتہ ہے کہ میری عمر صرف ہانچ سال رہ گئی ہے کیونکہ میں مسلسل تابکاری والی فضا میں کام کر رہا ہوں۔۔
اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تباہی انسانی غفلت کی وجہ سے ہوئی۔۔ لکھنے والوں نے ریسرچ کے نقصان کے صفحات پھاڑ دیے کہ ہماری قوت پر کسی کو شک نہ ہو اور پڑھنے والت نیوکلئیر سائنسدانوں نے غلط ہدایات پر حرف بحرف صحیح عمل کیا اور اس تابکاری کو محدود کرنے کی بجائے پھیلانے کا سبب بنے۔۔
حکام، سائینسدان ،سیاستدان۔۔ سب ہی کہیں نہ کہیں غلطی کر گئے ۔۔اثر کس پر ہوا؟ عام انسان پر۔۔
ماسکو اپنے دشمنوں سے مدد مانگنے پر مجبور ہوگیا۔۔
حالات جب سنگین ہوں تب ہی کیوں ایکشن لیا جاتا؟ جب مشرقی جرمنی نے اپنے بچے گھر بلا لئے تو چرنوبائل کے آس پاس کے علاقوں کو خالی کیا گیا۔۔
نہیں معلوم اس سیریز میں کتنی سچائی کتنا جھوٹ اور کتنا ڈرامہ ہے۔۔ مگر یہ سیریز آپکو جکڑ لیتی ہے۔۔آپ کوئی ایکشن سے بھرے دھماکے نہیں دیکھتے بلکہ انسانی فطرت کو دیکھتے ہیں۔۔اسکی خدائی بھی اسکی بے بسی بھی۔۔
مجھے بہت ہی شاندار لگی یہ سیریز بہت مختلف سی۔۔ ضرور دیکھیں۔۔کل ایک سیزن ہے اور پانچ چھ اقساط۔۔
عمارہ ناز
سی سی ڈی نیفے میں پستول چلا رہی ہے۔ صحیح ہے یا غلط؟ کچھ انصاف پسندوں کا خیال ہے کہ صحیح ۔۔چند روشن خیال من چلوں کا کہنا ہے کہ پھر محاسبہ کرنے والے کا محاسبہ کون کرے گا ؟ شرعاً یا قانون میں اسکی حد پر بات نہیں کروں گی۔ مگر ایک عورت کیا اور کیسے سوچتی ہے۔ یہ بتاتی ہوں۔۔۔ اگر آپ عورت ہیں تو فوراً سمجھ جائیں گی اور اگر آپ مرد ہیں تو اسے محسوس کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔
آپ کہیں بھی ہیں۔ اچانک ایک اضطراری کیفیت پہلے آپ کو بے چین کرتی یے اور پھر بے اختیار آپ کو ایک سمت میں دیکھنے پر مجبور کرتی یے۔ آپ دیکھتی ہیں کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے۔ وہ نگاہیں آپ کو غیر محفوظ کرنے لگتی ہیں کیونکہ آپ کی چھٹی حس ان کو ڈی کوڈ کر سکتی ہے۔ آپ اسٹریس میں ہیں۔ہزاروں نظروں میں بھی چھپی اس ایک نظر کو آپ دیکھ ، سمجھ اور محسوس کر سکتی ہیں ۔۔۔ اور اس نظر کا آپ پر گہرا اثر ہو رہا ہے۔ حالانکہ آپ کو کوئی بھی ہاتھ نہیں لگا رہا۔ مگر آپ بے چین اور بے آرام ہو گئیں ۔
۔۔۔
آپ کو کسی نے چھوا ہے۔۔۔ آپ کی مرضی کے بغیر۔۔۔۔ پہلے آپ کے جسم میں ایک کرنٹ دوڑتا ہے۔ جس سے آپ کی وہی کیفیت ہوتی ہے جیسے کرنٹ لگنے سے۔ جسم سن اور دھڑکن تیز۔۔۔ جیسے سینہ پھاڑ کر دل باہر نکل جائے گا ۔۔ دماغ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا ہوا۔۔۔ کیوں ہوا؟ اور میرے ساتھ ہی کیوں ؟۔ ۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی جگہ نفرت اور غصہ لے لیتے ہیں ۔ نفرت اس انسان کے ساتھ ساتھ خود سے بھی ۔۔۔ اور غصہ صرف اس انسان پر ۔۔۔ کہ اسکی ہمت کیسے ہوئی ۔۔۔ ایسے میں اگر اس انسان کو قابو کر کے آپ کو اسے اوور پاور کرنے کی اجازت دی جائے تو سب سے پہلے آپ اس کے منہ پر تھوکنا پسند کریں گی۔ اور پھر مارے نفرت کے اسے لاتیں یا ٹھڈے مارنا چاہیں گی۔ ہاتھ نہیں لگانا چاہیں گی۔ کیونکہ اس شخص نے ابھی ابھی اپنے غلیظ ہاتھ سے ہی آپ کی پرسنل اسپیس کراس کی ہے۔ اور آپ کے دماغ میں "ہاتھ" کو لے کر ایک کراہت بھرا احساس ہے۔
۔۔۔
کسی نے حد سے بڑھ کر آپ کو چھوا ہے۔ اب ایک دم غصے کا ایک ابال آپ کی سانس روک رہا ہے۔ آپ کی آنکھوں کے گوشے نم۔۔ جسم سن ۔۔ اور دھڑکن بے ترتیب ہے۔ مگر آپ اپنے آپ کو سنبھالنا چاہتی ہیں۔ ایک پل میں آپ کا سارا ایمرجنسی سسٹم اور سٹریس لیول ایٹکویٹ ہو گیا یے۔ کسی نے آپ کے سب سے زیادہ مقدس اثاثے۔۔۔آپ کے جسم کو غلط چھوا ہے۔ اس انسان نے ایک لمحے میں آپ کے دل میں دنیا جہاں کا ڈر بھر دیا ہے۔ اسی لمحے میں آپ کا دنیا پر سے اعتبار بھی اٹھ گیا ہے۔ آپ اب ہرایک آدمی سے نفرت محسوس کر رہی ہیں ۔۔۔۔ایسے میں اگر آپ کے ہاتھ میں ہتھیار دیا جائے تو آپ اسے اس شخص پراستعمال کرنے سے نہیں چوکیں گی۔
صرف ایک لاٹھی ہی پکڑا دی جائے ۔ آپ اسکی ہڈیاں ٹوٹنے تک اس پر وار کریں گی۔
۔۔۔۔
کسی نے آپ کے ساتھ زبردستی زیادتی کی ہے۔ آپ کے لیے زندگی کے معنی بدل چکے ہیں۔ آپ ساری عمر اس گھٹیا شخص کے ساتھ ساتھ خود کو بھی معاف نہیں کریں گی۔
آپ کو وقت پیچھے لے جانا ہے۔ وہ سارا احساس خود سے اتارنا یے۔ وہ اذیت بھرے لمحات بھولنے ہیں ۔ وہ تمام حالات و واقعات بدلنے ہیں جو اس نتیجے کا باعث بنے ۔ ۔۔ مگر ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔
یہ بے بسی آپ کوبے چین رکھتی ہے۔ وہ گھن بار بار آپ کو گھیر لیتی ہے ۔۔ اور ساری عمر آپ ان لمحات کی قید سے کبھی نہیں نکل سکیں گی۔ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی آپ کا قصور کیا تھا ۔۔
محض ہونا؟ تو پھر آپ ہیں ہی کیوں؟
کیا یہ جرم آپ کے کسی کرم کی سزا تھا؟
ایسے کیسے کر سکتا ہے کوئی؟
بار بار ذہن وہی ایک سین دہرائے گا۔ اس اذیت سے چھٹکارا ناممکن ہے۔ رگڑ رگڑ کر جسم دھونے سے بھی ناپاکی اور کراہت کا یہ احساس کم نہیں ہو گا۔۔۔۔ آئندہ آپ کے لیے کسی بھی انسان کا محض "چھونا" ہی ٹریگر ہے ۔۔۔ جیسے ایک ہرنی شکاری کو سامنے دیکھ کر ادھ موئی ہو جائے اور پھر ہمیشہ اسی لمحے میں قید ہو جائے۔
جناب یہ ایک شخص کی ایموشنل موت تھی۔
۔۔
قصاص کیا ہے؟ موت کا بدلہ موت۔ اس ایک لمحے میں ایک لڑکی ہمیشہ کے لیے جذباتی طور پر قتل ہو گئی۔ وہ کبھی بھی پہلے جیسی بے فکری ، اعتبار کرنے والی اور دنیا کو اپنے لیے محفوظ سمجھنے والی نہیں رہے گی۔ اسکی نظریں ہمیشہ ایک ان دیکھے خوف کے ڈر سے کسی انہونی کا انتظار کریں گی۔ ۔۔
اب بدلے میں جس طاقت کے غرور نے اسکا قتل کیا ۔۔اس کا نیفے میں اُڑنا تو بنتا ہے ۔۔۔
اگر دنیا کی ایک بھی وکٹم خاتون کے ہاتھ میں آپ پستول اور سامنے مجرم کھڑا کر دیں تو وہ کبھی بھی اسے معاف نہیں کر پائے گی۔
اور ان سب اذیتوں کے ساتھ ان تمام خواتین کو ایک اور جنگ کا سامنا بھی رہتا ہے۔۔۔ شاید سارا قصور ان کا ہی ہے ۔۔ وہ اس جگہ تھیں ہی کیوں ۔۔۔ کپڑے کیسے تھے ۔۔۔ وقت کیا تھا۔۔۔کس کے ساتھ تھیں ؟ کسی نے ان کو ہی کیوں چنا۔۔۔۔ غلطی تو انکی بھی برابر ہے۔ کیونکہ قصور تھا یا نہیں۔۔۔ پر دو کی اس کہانی میں دوسری وہ تھیں۔۔۔۔
۔۔۔
اپنی بیٹیوں کو اعتماد ہی نہیں ہمت بھی دیں۔ انہیں اعصاب پر قابو رکھنے اور فوری پلٹ کر وار کرنے کے لیے جسمانی طور پر لڑنا سکھائیں اور اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو ہتھیار چلانا بھی ضرور سکھائیں۔ فوری بچاؤ اور بدلہ لے پائیں گی تو سی سی ڈی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب فوٹیج میں ہم کسی کو چھیڑ خانی کرنے پر عبرت کا نشان بنتے دیکھیں گے تب عورتوں کے دل میں سکون اور روشن خیال من چلوں کی زبان پر تالا پڑ جائے گا۔۔۔ کیونکہ سی سی ڈی کا عمل تو پتہ نہیں ۔۔۔مگر اپنا ڈیفینس تو سب کا قانونی حق ہے نا۔۔
فاطمہ عمران
ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک نوجوان، عابد، دل اور دماغ کے ایک ایسے ہی جنگل میں بھٹک رہا تھا جہاں ہر طرف خاردار خیالوں کی بیلیں پھیلی تھیں۔ اس کا دل زندگی کی ناانصافیوں، محبتوں کے ٹوٹنے، اور خوابوں کے بکھرنے کے زہر سے چور تھا۔ ہر دکھ، ہر دھوکہ، ہر ناکامی کی ایک ایک بوند اس نے اپنے دل کے پیالے میں جمع کر رکھی تھی اور روز اسے پیتا تھا۔ یہ زہر اس کے لیے اتنا معمولی ہو چکا تھا جیسے پانی۔ مگر اسی زہر کا اثر تھا کہ وہ مرتا نہیں تھا، بس جھلس رہا تھا، اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔
ایک دن اس کی ملاقات ایک بزرگ درویش سے ہوئی جو ایک پرانے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عابد کی آنکھوں میں چھلکتی مایوسی دیکھ کر درویش نے پوچھا، "بیٹا، چہرہ اتنا زرد کیوں ہے؟"
عابد نے اپنا سارا دکھڑا سنایا اور کہا، "حضرت، زندگی کا زہر میں روز پی رہا ہوں۔ یہ مجھے مارے بغیر ہی تڑپا رہا ہے۔"
درویش مسکرائے اور اپنے پیاس بجھانے کے برتن سے ایک قطرہ پانی ایک پیالے میں ڈالا۔ پھر انہوں نے زمین سے ایک معمولی سی جڑی بوٹی توڑی، جس میں زہر تھا، اور اس کا عرق نکال کر اسی قطرہ پانی میں ملا دیا۔
"پی لو،" درویش نے کہا۔
عابد نے حیران ہو کر کہا، "لیکن یہ تو زہر ہے! تھوڑا سا بھی مجھے ہلاک کر دے گا۔"
درویش نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا، "تم تو روزانہ اپنے بنائے ہوئے زہر کا دریا پی رہے ہو، پھر یہ ایک قطرہ تمہیں کیسے مارے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ زہر کو پینے کا طریقہ تم نہیں جانتے۔"
پھر درویش نے اسے ایک راز بتایا۔ "دیکھو، زندگی خود ایک زہر ہے۔ موت کا خوف، محبت کا درد، جدائی کا کڑواہٹ۔ لیکن جب تم اس زہر کو تھوڑا تھوڑا کر کے پیتے ہو، تو وہ تمہیں مرنے نہیں دیتا بلکہ تمہیں اس کی عادت ڈال دیتا ہے۔ یہی عادت تمہاری کمزوری بن جاتی ہے اور تم ہمیشہ اس کے اثر میں رہتے ہو۔"
"پھر اس سے چھٹکارا کیسے ملے؟" عابد نے بے چینی سے پوچھا۔
"چھٹکارا نہیں، 'وصول' چاہیے!" درویش نے کہا۔ "جس دن تم زندگی کے اس زہر کو تھوڑا سا نہیں، بلکہ ایک ہی بار پورا پی لو گے، اس دن تمہیں معلوم ہو گا کہ یہی زہر ہی اصل تریاق ہے۔ ڈر کر، کترا کر، چھپا کر تھوڑا تھوڑا زہر پینے والا ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ لیکن جو کوئی ڈھٹھائی سے اس کے پورے سمندر کو ہی پی جاتا ہے، وہ اس میں سے زندگی کا امرت نکال لیتا ہے۔"
عابد سمجھ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنے دکھوں سے نہیں بھاگے گا۔ اس نے اپنے ہر خوف، ہر دکھ، ہر ناکامی کو پورے وجود کے ساتھ گلے لگا لیا۔ وہ رویا، تڑپا، چلایا، لیکن بھاگا نہیں۔ اس نے زہر کا پورا پیالہ ایک ہی بار ہاتھ میں اٹھا لیا۔
ایک عجیب بات ہوئی۔ جب اس نے اس زہر کو پورے شعور کے ساتھ پیا، تو وہ تلخ تو تھا، مگر اس کے بعد ایک سکون، ایک طاقت، ایک روشنی اس کے اندر جاگ اٹھی۔ اسے احساس ہوا کہ وہی درد جو اسے کمزور کرتا تھا، اب اس کی سب سے بڑی طاقت بن گیا تھا۔ وہی زہر اب اس کی روح کا غذا بن چکا
**حقیقت یہ ہے کہ:**
ہم دکھ، مایوسی اور تکلیف کے زہر کو روزانہ تھوڑا تھوڑا پیتے ہیں اور زندہ لاش بنے پھرتے ہیں۔ لیکن جب ہم اسے پورے شعور اور حوصلے کے ساتھ ایک ہی بار پیتے ہیں، تو یہی ہمارا "وجدان" بن جاتا ہے۔ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ:
**"زہر مرنے کے لیے تھوڑا سا مگر جینے کے لیے بہت سارا پینا پڑتا ہے۔"**
جینے کا راز یہی تو ہے — ڈر کر نہیں، بلکہ ڈھٹھائی سے زندگی کے ہر زہر کو اس کی پوری مقدار میں پینا، تب جا کر وہ تریاق بن جاتا ہے۔
بقلم: رزاق رضا
#razzaqrazawrites
آٹھ ماہ سے دنیا کا سب سے مطلوب شخص غائب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اسے ایک تابوت جتنے بڑے سوراخ (زیر زمین بنکر) میں پایا - مسلح، داڑھی والا، اور بالکل تنہا۔ ڈکٹیٹر مٹی بن چکا تھا۔
13 دسمبر 2003۔ تکریت، عراق کے باہر ایک فارم ہاؤس۔ جدید فوجی تاریخ میں سب سے بڑی کھوج کا خاتمہ۔
یہ آپریشن ریڈ ڈان کی کہانی ہے — جس رات صدام حسین، جس نے عراق پر مکمل طاقت اور دہشت کے ساتھ حکومت کی تھی، زمین کے نیچے بنکر میں چھپا ہوا پایا گیا۔
اپریل 2003: زوال
گرفتاری کو سمجھنے کے لیے، آپ کو زوال کو سمجھنا ہوگا۔
اپریل 2003 میں، امریکی اور اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کیا۔ چند ہفتوں میں بغداد گر گیا۔ صدام حسین کی حکومت گر گئی۔ اس کے مجسمے گرائے گئے۔ اس کے محلات لوٹ لیے گئے۔
اور صدام خود؟ وہ غائب ہو گیا۔
کوئی ڈرامائی آخری مزاحمت نہیں۔ بالکونی سے کوئی حتمی تقریر نہیں۔ بس وہ. چلا گیا۔
مہینوں تک، افواہیں گردش کرتی رہیں۔ وہ شام میں تھا۔ وہ ایک بنکر میں تھا۔ وہ مزاحمتی جنگجوؤں کی سپورٹ حاصل ک رہا تھا۔ وہ مر چکا تھا۔
انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہلچل مچا دی۔ سپیشل آپریشنز فورسز نے لیڈز کی پیروی کی۔ گرفتاری کے بغیر ہر روز کا مطلب امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان تھا: "صدام اب بھی وہاں سے باہر ہے۔ امریکہ اسے تلاش نہیں کر سکتا۔"
دباؤ بہت زیادہ تھا۔ صدام حسین کو ڈھونڈنا فوجی حکمت عملی، سیاسی ضرورت اور علامتی اہمیت کا معاملہ بن گیا۔
تلاش: آپریشن ریڈ ڈان
دسمبر 2003 تک، امریکی افواج منظم طریقے سے گرفتار حکومت کے ارکان، مخبروں اور نگرانی سے حاصل کی گئی انٹیلی جنس کے ذریعے کام کر رہی تھیں۔
انہوں نے تکریت کے ارد گرد کے علاقے پر توجہ مرکوز کی — صدام کے آبائی شہر اور قبائلی گڑھ۔ اگر وہ کہیں بھی چھپا ہو سکتا تھا، تو وہ وہاں ہوگا، ان لوگوں کے درمیان جو اب بھی وفادار ہوسکتے ہیں۔
13 دسمبر کی رات کو، انٹیلی جنس نے تکریت کے بالکل جنوب میں، عد الدور قصبے کے قریب دو مقامات کی نشاندہی کی۔ دونوں فارم ہاؤسز صدام کے سابق محافظوں کے تھے۔
مقامی وقت کے مطابق شام 8:00 بجے کے قریب، چوتھی انفنٹری ڈویژن کے دستے، جنہیں خصوصی آپریشنز فورسز کی مدد حاصل تھی، اندر داخل ہوئے۔
فارم ہاؤس
پہلے مقام سے کچھ بھی اہم نہیں نکلا۔ لیکن دوسرے فارم ہاؤس پر — ایک معمولی، غیر قابل ذکر عمارت — کچھ مختلف محسوس ہوا۔
کمپاؤنڈ کی تلاشی لی گئی۔ مرکزی گھر میں کچھ نہیں۔ آؤٹ بلڈنگز میں کچھ بھی نہیں۔ فوجی آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ کسی نے کچھ عجیب دیکھا:
ایک چھوٹی سی جھونپڑی کے پاس زمین کا ایک حصہ disturb دکھائی دے رہا تھا۔ اسٹائرو فوم اور اینٹوں کو جزوی طور پر گندگی اور قالین نے ڈھانپ رکھا تھا۔
انہوں نے اسے صاف کیا — اور زمین سے ایک وینٹیلیشن پائپ چپکا ہوا پایا۔
کوئی زیر زمین تھا۔
فوجیوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ ہتھیار تیار کر لئے۔ انہوں نے گڑھے میں نیچے بلایا، جو بھی اندر تھا اسے باہر آنے کا حکم دیا۔
کوئی جواب نہیں۔
انہوں نے لڑائی کی تیاری کی۔ دستی بم تیار تھے
پھر، آہستہ آہستہ، سوراخ سے ہات باہر نکلے
اس ٹھکانے کو بعد میں "مکڑی کے سوراخ" کا نام دیا گیا تھا
6 سے 8 فٹ گہرا
صرف ایک شخص کے لیے کافی چوڑا
وینٹیلیشن پائپ اور چھوٹے پنکھے سے لیس
صرف اینٹوں اور اسٹائرو فوم پلگ سے ڈھانپے ہوئے ایک تنگ دروازے سے قابل رسائی
سوراخ کے اندر: ایک تنگ جگہ جس میں بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے کافی جگہ ہو۔ بنیادی سامان۔ ایک پستول۔ نقد (اطلاع کے مطابق $750,000)۔ اور ایک آدمی۔
ہاتھ نکلتے ہی سپاہیوں نے انہیں پکڑ کر کھینچ لیا۔
ایک پراگندہ، داڑھی والا آدمی سامنے آیا جو دنیا کو یاد رکھنے والے پالش ڈکٹیٹر جیسا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
اس کے بال لمبے اور بے رنگ تھے۔ اس کی داڑھی کھردری اور سرمئی تھی۔ وہ گندا تھا۔ وہ تھکے ہارے لگ رہے تھے۔
لیکن یہ بلاشبہ وہ تھا: صدام حسین۔
"ہم نے اسے پکڑ لیا"
صدام مسلح تھا - اس کے پاس ایک گلوک پستول تھا - لیکن اس نے مزاحمت نہیں کی۔ اس نے فائر نہیں کیا۔ اس نے محض ہتھیار ڈال دیے۔
اطلاعات کے مطابق جب ان سے اپنی شناخت پوچھی گئی تو اس نے انگریزی میں کہا: ’’میں عراق کا صدر صدام حسین ہوں اور میں مذاکرات کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
ایک فوجی نے مبینہ طور پر جواب دیا: "صدر بش نے آپ کو سلام بھیجا۔"
صدام کو فوراً روک لیا گیا، تلاشی لی گئی اور محفوظ کر لیا گیا۔ طبی عملے نے اس کا معائنہ کیا۔ ڈی این اے ٹیسٹ بعد میں اس کی شناخت کی تصدیق کی گئی، لیکن کوئی حقیقی شک نہیں تھا.
وہ شخص جس نے 24 سال تک عراق پر حکمرانی کی ، زمین کے ایک بنکر میں چھپا ہوا پکڑا گیا۔
چند گھنٹوں کے اندر، لیفٹیننٹ جنرل ریکارڈو سانچیز نے بغداد میں ایک پریس کانفرنس کی اور دنیا کو اعلان کیا:
"خواتین و حضرات... ہم نے اسے پکڑ لیا۔"
کمرہ گونج اٹھا۔ صحافی ہانپ گئے۔ دنیا رک گئی۔
وہ تصاویر جنہوں نے پوری دنیا کو چکرا دیا۔
امریکی فوج نے صدام کی گرفتاری کی فوٹیج اور تصاویر جاری کیں:
ایک فوجی ڈاکٹر کی طرف سے اس کا معائنہ کرتے ہوئے، معائنہ کے لیے اپنا منہ کھولنے کی ویڈیو (ایک ایسے شخص کے لیے ایک ذلت آمیز تصویر جس نے دہشت اور طاقت سے حکومت کی تھی)
یہ تصاویر دنیا کی ہر ٹیلی ویژن اسکرین، ہر اخبار کے صفحہ اول، ہر ویب سائٹ پر شائع کی گئی۔
|
*پیسے بھی آپ کے خرچ ۔ خسارے میں بھی آپ ۔* *اگر آپکی موبائل سم پر گانے لگے ھوئے ہیں تو ان کو فورًا بند کروا دیں ؛* *اس میں آپ کے دو فائدے ھیں...
|
|
میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتا...
|
|
آپریشن کے بعد گاوُں سے آئے ھوئے مریض کے رشتہ داروں کی ڈاکٹر سے بات چیت🙏🏼🙏🏼 ڈاکٹر صاب مریض نوں کھان لئی کی دیئے؟ ڈاکٹر :نرم غذا دیں... م...
|
|
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس می نویس و می نویس و می نویس
|
|
ایک بار مرزا مسکین کی محبوبہ نے مرزا سے کہا: دوسرے عشّاق کے برعکس جو محض اپنی محبوباؤں سے یہ کہتے ہیں کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائیں گے یا ...
|
|
🌹امام کی تلاش🌹 ............................................. پچھلے دنوں ایک مسجد میں نئے امام کی تلاش جاری تھی۔ چند کمیٹی ممبران ایک مفت...
|
|
تجھے پیار کرتے کرتے میری عمر بیت جائے۔ تشریح شاعر اپنے محبوب سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ 😉🤗😄😅😃😶😑
|
|
یہ عذاب کچے گھروں پر ہی ٹکیوں اترتے ہیں ۔ سیلاب کی باڑ، مزارع کے مال مویشی ہی کیوں بہا لے جاتی ہے۔ ؟ طوفان سے غریب کے گھر کی چھت ہی کیوں ...
|
|
Advanced Weather App Weather App
|
|
سی سی ڈی نیفے میں پستول چلا رہی ہے۔ صحیح ہے یا غلط؟ کچھ انصاف پسندوں کا خیال ہے کہ صحیح ۔۔چند روشن خیال من چلوں کا کہنا ہے کہ پھر محاسبہ ک...
|
© 2023 جملہ حقوق بحق | اردو میڈون بلاگر ٹیمپلیٹ | محفوظ ہیں