ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک نوجوان، عابد، دل اور دماغ کے ایک ایسے ہی جنگل میں بھٹک رہا تھا جہاں ہر طرف خاردار خیالوں کی بیلیں پھیلی تھیں۔ اس کا دل زندگی کی ناانصافیوں، محبتوں کے ٹوٹنے، اور خوابوں کے بکھرنے کے زہر سے چور تھا۔ ہر دکھ، ہر دھوکہ، ہر ناکامی کی ایک ایک بوند اس نے اپنے دل کے پیالے میں جمع کر رکھی تھی اور روز اسے پیتا تھا۔ یہ زہر اس کے لیے اتنا معمولی ہو چکا تھا جیسے پانی۔ مگر اسی زہر کا اثر تھا کہ وہ مرتا نہیں تھا، بس جھلس رہا تھا، اندر ہی اندر سلگ رہا تھا۔
ایک دن اس کی ملاقات ایک بزرگ درویش سے ہوئی جو ایک پرانے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عابد کی آنکھوں میں چھلکتی مایوسی دیکھ کر درویش نے پوچھا، "بیٹا، چہرہ اتنا زرد کیوں ہے؟"
عابد نے اپنا سارا دکھڑا سنایا اور کہا، "حضرت، زندگی کا زہر میں روز پی رہا ہوں۔ یہ مجھے مارے بغیر ہی تڑپا رہا ہے۔"
درویش مسکرائے اور اپنے پیاس بجھانے کے برتن سے ایک قطرہ پانی ایک پیالے میں ڈالا۔ پھر انہوں نے زمین سے ایک معمولی سی جڑی بوٹی توڑی، جس میں زہر تھا، اور اس کا عرق نکال کر اسی قطرہ پانی میں ملا دیا۔
"پی لو،" درویش نے کہا۔
عابد نے حیران ہو کر کہا، "لیکن یہ تو زہر ہے! تھوڑا سا بھی مجھے ہلاک کر دے گا۔"
درویش نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اور کہا، "تم تو روزانہ اپنے بنائے ہوئے زہر کا دریا پی رہے ہو، پھر یہ ایک قطرہ تمہیں کیسے مارے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ زہر کو پینے کا طریقہ تم نہیں جانتے۔"
پھر درویش نے اسے ایک راز بتایا۔ "دیکھو، زندگی خود ایک زہر ہے۔ موت کا خوف، محبت کا درد، جدائی کا کڑواہٹ۔ لیکن جب تم اس زہر کو تھوڑا تھوڑا کر کے پیتے ہو، تو وہ تمہیں مرنے نہیں دیتا بلکہ تمہیں اس کی عادت ڈال دیتا ہے۔ یہی عادت تمہاری کمزوری بن جاتی ہے اور تم ہمیشہ اس کے اثر میں رہتے ہو۔"
"پھر اس سے چھٹکارا کیسے ملے؟" عابد نے بے چینی سے پوچھا۔
"چھٹکارا نہیں، 'وصول' چاہیے!" درویش نے کہا۔ "جس دن تم زندگی کے اس زہر کو تھوڑا سا نہیں، بلکہ ایک ہی بار پورا پی لو گے، اس دن تمہیں معلوم ہو گا کہ یہی زہر ہی اصل تریاق ہے۔ ڈر کر، کترا کر، چھپا کر تھوڑا تھوڑا زہر پینے والا ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ لیکن جو کوئی ڈھٹھائی سے اس کے پورے سمندر کو ہی پی جاتا ہے، وہ اس میں سے زندگی کا امرت نکال لیتا ہے۔"
عابد سمجھ گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنے دکھوں سے نہیں بھاگے گا۔ اس نے اپنے ہر خوف، ہر دکھ، ہر ناکامی کو پورے وجود کے ساتھ گلے لگا لیا۔ وہ رویا، تڑپا، چلایا، لیکن بھاگا نہیں۔ اس نے زہر کا پورا پیالہ ایک ہی بار ہاتھ میں اٹھا لیا۔
ایک عجیب بات ہوئی۔ جب اس نے اس زہر کو پورے شعور کے ساتھ پیا، تو وہ تلخ تو تھا، مگر اس کے بعد ایک سکون، ایک طاقت، ایک روشنی اس کے اندر جاگ اٹھی۔ اسے احساس ہوا کہ وہی درد جو اسے کمزور کرتا تھا، اب اس کی سب سے بڑی طاقت بن گیا تھا۔ وہی زہر اب اس کی روح کا غذا بن چکا
**حقیقت یہ ہے کہ:**
ہم دکھ، مایوسی اور تکلیف کے زہر کو روزانہ تھوڑا تھوڑا پیتے ہیں اور زندہ لاش بنے پھرتے ہیں۔ لیکن جب ہم اسے پورے شعور اور حوصلے کے ساتھ ایک ہی بار پیتے ہیں، تو یہی ہمارا "وجدان" بن جاتا ہے۔ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ:
**"زہر مرنے کے لیے تھوڑا سا مگر جینے کے لیے بہت سارا پینا پڑتا ہے۔"**
جینے کا راز یہی تو ہے — ڈر کر نہیں، بلکہ ڈھٹھائی سے زندگی کے ہر زہر کو اس کی پوری مقدار میں پینا، تب جا کر وہ تریاق بن جاتا ہے۔
بقلم: رزاق رضا
#razzaqrazawrites
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں